ESSAY
ایک گلاس پانی، ایک جلتا ہوا لڑکا: فادي جودة اور غزہ کی تصاویر
مصنف: فادي جودۃ ۔ اردو ترجمہ: میرِ شہیر ۔ مصور: میسرۃ بارود

2025 ،"میسرۃ بارود،"لا زلت حیاََ
Maisara Baroud, "I'm still alive", 2025
ک “کیا اُس کے قاتلوں کی زبان ہماری زندگی کا حصہ نہیں؟
کیا کوئی موت ایسی ہے جسے ہم نے سستا نہیں کیا؟”؟
عارضی اسپتال کے بستر پر جلتا ہوا نوجوان، دنیا کی اجتماعی یادداشت پر ایک ایسا زخم چھوڑ گیا جسے بیان کرنا ممکن نہیں۔ ایک ضعیف یادداشت — کم توجہ، بے چین، اور دانستہ طور پر چھلنی، جس کے پیچھے کوئی صنعتی تسلسل نہیں — اور کیا تمہیں لگتا ہے کہ جلادوں کو پرواہ ہے؟ تصویروں اور ان میں بسی زندگیوں کے پس انجام کا کلچر۔ نیشنل جیوگرافک کی سبز چمکتی آنکھیں۔ جنس اور ماحول۔ ایک گِدھ، جو غیرجانبداری سے ایک نیم مردہ بچے کو بھوک سے مرنے دے رہا ہے۔ لاش، بس لاش ہوتی ہے۔ ایک برہنہ لڑکی، جبری بے دخلی کے سفر میں، سڑک پر درد سے چیختی ہوئی — اُس کے آدھے جسم کو اُس فوج نے جلا دیا ہے جو اُس قوم کی نمائندہ ہے جو مسلسل احتجاج تو کرتی ہے مگر اُس نظام کو گرانے سے انکار کرتی ہے جسے وہ خود قائم رکھے ہوئے ہیں۔ جوکھم اور مفاد کا تناسب یہی تقاضا کرتا ہے۔ کتنے نسل کشی کے واقعات ایسے تھے جنہیں ان کے اصل نام سے نہیں پکارا گیا؟ یہ تاریخی بھول تھی یا شعوری انکار؟
اور یہ آدمی جو زندہ جل رہا تھا، آگ اُس کے قدموں سے شروع ہو کر سر کی طرف بڑھ رہی تھی آخری لمحے تک سر کو سلامت رکھے جانے کا ڈرامہ جیسے آگ ہم پر کوئی احسان کر رہی ہو ، ہمیں وہ یاد فراہم کر رہی ہو جس کی ہمیں تمنا ہے، جب نسل کشوں کا خواب بالآخر خود اُنہیں نگل گیا۔ ایک “آخری حل” جو گھوم کر واپس آیا، ایک ایسی فتح کی صورت میں جس میں کوئی فاتح نہیں تھا۔ زندہ جلتے ہوئے اُس آدمی کا کوئی نام نہ تھا، صرف وہ خطابات تھے جو وہ ہمارے لیے تھا — یا نہیں تھا غزہ میں ایک فلسطینی۔ عمر نامعلوم۔
اس کے بازو سیدھے تن کر چہرہ بچانے کے لیے اٹھے ہوئے تھے، تن اس لیے کہ آگ نے اس کے دھڑ کو اتنی تیزی سے لپیٹا کہ وہ ایک ایسی کہانی میں سمٹ گیا جو کبھی تھی ہی نہیں۔ اگر مجھے اس بدتہذیبی کی اجازت دیں کہ میں کہوں اُس کے بازو مائیکل جیکسن کے “تھرلر” میں زومبی ڈانس کی پوز جیسے تھے؟ کیا اُس کے قاتلوں کی زبان ہماری زندگی کا حصہ نہیں؟ کیا کوئی موت بچی ہے جسے ہم نے سستا نہ کر دیا ہو؟ ہے — کورس میں فوراً جواب آتا ہے۔ وہ آدمی جو زندہ جل رہا تھا، چیخ نہیں سکا۔ یہ اُس لمحے ایک جسمانی حقیقت تھی وہ مکمل صدمےمیں تھا، اور ہم مکمل حیرت میں۔ وہ درد کے احساس سے آگے جا چکا تھا۔ اس کا گلا غیر متعلق ہو چکا تھا۔ غیر ضروری نرخرہ۔
اُس کے قتل کے بعد اُس کا نام زندہ ہو گیا، اُس کا جیتا جاگتا چہرہ اور خوبصورت سیاہ بال، اسکول میں اُس کی ذہانت کی کہانیاں، اور یہ خواب کہ وہ ڈاکٹر بنے گا — اور شاید وہ واقعی ایک باصلاحیت ٹراما سرجن بن جاتا، جو کسی مہذب ملک کے جدید برن وارڈ میں خدمات انجام دے رہا ہوتا۔ یہ سب ممکن نہ ہوتا اگر تم ایک ایسے نظام کے خلاف مزاحمت نہ کرتے جو اُنہیں بالواسطہ جلا کر مار دیتا ہے، اور بالواسطہ ہی زندہ بھی رکھتا ہے۔ ہم اُنہیں اپنے نام پر زندہ رکھتے ہیں، حالانکہ ہم انہیں اپنے نام پر نہیں جلاتے۔ انتفاضہ ایک ایسے خوف کے خلاف ابھرتی ہے جو شرطی ردعمل کے پہیے پر گھومتا ہے۔
ایک جلی ہوئی روح، جیسے نادیدہ سیاہی، ایک بار جل جانے کے بعد اُس جسم کے بدلے نظر آتی ہے جسے وہ کبھی روشن کرتی تھی اسی طرح جلتی ہوئی روح، قاتل کی روح کو بھی سیاہ کر دیتی ہے۔ ۔ پھر بھی قاتل کا جسم زندگی جاری رکھتا ہے، دھوتا ہے، چھلکا اُتارتا ہے، اور زمین پر زندگی کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرتا ہے۔ کیا کیمرہ ڈیجیٹل دور میں ناقابل بیان کو زیادہ قابلِ بیان بناتا ہے؟ کیا یہ کوئی اچھی بات ہے یا فقط ایک بات؟ وہ دہشت جو براہِ راست نشر ہونے والے بیان کا موضوع نہیں بنتی، بمقابلہ وہ دہشت جو بن جاتی ہے۔ مزید کتابیں ایک ایسی وضاحت کی تلاش میں جو کائناتی اصول سے لازمی اخلاقی حکم کشید کرنے پر تُلی ہو — یہاں تک کہ جو کچھ آفاقیت میں باقی رہ جائے وہ بس ایک خودمختار شے کی مانند زندگی ہو، جو بے نیازی سے چلتی رہے، خود کو ہر صورت میں دوبارہ پیدا کرتی رہے۔ یہ انسانوں کو دیوانہ کر دیتا ہے کہ وہ زندگی سے بہتر نہیں ہو سکتے۔ ساری باتیں، ساری دماغی سوچ—سب زندگی کے لیے فالتو، جو صرف تکرار کو جنم دیتی ہے۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ کائنات کو کوئی پرواہ ہے کہ ہم زندگی کو کس چیز سے تعبیر کرتے ہیں؟ مگر وقت طویل بھی ہے، اور وقت یہی لمحہ بھی ہے۔ اگر تم خود کو یہ یقین دلا دو کہ یہ لمحہ طویل ہے اور تمہارا ہے، تو تم وقت کے مالک بن جاتے ہو۔
ہمیں بتایا جاتا ہےکہ ہم میں اربوں لوگ اس سیارے پر ایسے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جو انسانی تاریخ کے کسی بھی دور سے بہتر ہیں،۔ گویا ہم سے پہلے کے انسان زندگی کے مطلب کو ہمارے جیسا نہیں سمجھتے تھے یا سمجھتے تھے مگر ان کے پاس ہمارے برعکس اس مطلب تک پہنچنے کے وسائل نہیں تھے۔ مثال کے طور پر، مجھے راستے بدلنا اتنا ہی پسند ہے جتنا کوئی دوسرا ضمیر۔ زندگی کے لیے کارکردگی نے وہ کیا کیا جو غیر کارکردگی نہیں کر سکی؟ عربی میں ‘ضمیر’ کا لفظ اسمِ ضمیر اور انسانی ضمیر—دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جڑ اپنے اندر ہی مرجھا جاتی ہے۔ اُس دن کے حوالے سے جب جلتے ہوئے نوجوان کا منظر فلمایا گیا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ اس وقت اس کا چھوٹا بھائی بھی جل رہا تھا جسے ان کے والد نے آگ سے بچا لیا تھا مگر چند دنوں بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ فوت ہو گیا؟ اُس کا نام کیا تھا؟ اُن کے والد نے بڑے بھائی سے معافی مانگی کیونکہ اُنہوں نے اُسے بچانے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اُس نے آگ میں الفاظ کہے، “سمحني يابا”۔ والد نے یہ الفاظ پکارے نہیں۔ دہکتے ہوئے شعلے، جیسے ایک طوفانی سمندر، کوئی آواز اندر نہیں جانے دیتا۔
جب میں نے پہلی بار وہ ویڈیو دیکھی، فریم سے باہر ایک شخص چلا رہا تھا، “اسے نکالو، تمہارا مذہب برباد ہو۔” وہ جلتی ہوئی آگ کے گرد گھبراہٹ میں گھومتے ہوئے نوجوانوں کے گروپ سے بات کر رہا تھا جو کسی ایسے موقع کی تلاش میں تھے جہاں سے ان کی ہمت خوف سے بچ کر نکل سکے—ایک جوڑے نے جلتے ہوئے جسم پر کمبل ڈالنے کی کوشش کی، لیکن شعلوں نے اسے چھوتے ہی نگل لیا۔ ایک کمبل کم، سردی قریب آ رہی ہے۔ اور وہ گستاخانہ جملہ جو اس شخص نے الوہیت سے انکار کی صورت میں انسان یا انسان کے اندر خود سے انکار کے طور پر کہا، “تمہارا مذہب برباد ہو۔” جب یہ جملہ انگریزی میں آتا ہے، اگر زندہ رہتا ہے تو صرف ایک آئینے کے اندر زندہ رہتا ہے۔ وہ جسم جس سے یہ آیا تھا، غائب ہو جاتا ہے۔ آئینے کی تصویر کوئی سایہ نہیں ڈالتی۔ میں شعلے دیکھ رہا تھا اور سنتا رہا، ماضی سے جو پہلے ہی بیت چکا تھا غیرمتغیر رہنے کی التجا کرتا رہا، ان گستاخ اور الجھے ہوئے نوجوانوں کو جواب دیتے ہوئے جو نجات کیلئے کسی کھڑکی کی تلاش میں تھے: “اسے جلتا رہنے دو،” میں نے سکرین سے کہا، یہ میرا ردعمل تھا ان کے ردعمل پر، کوڈ ریڈ کے جواب میں کوڈ بلیو: “اسے چھوڑ دو، رحم کو آنے دو، تمہارا مذہب برباد ہو۔”۔
میں جس ہسپتال میں، یا جس ہسپتال کیلئے کام کرتا ہوں وہ ایک مریکی زندگی کو فوری موت سے بچانے کیلئے لاکھوں ڈالر خرچ کرتا ہے۔ اس بہار ایک ریٹائرڈ ڈاکٹر اپنی بیوی کو تین ہفتوں کے لیے آلات کے استعمال کے لیے جانے نہیں دیتا تھا تاکہ وہ اپنی بےسودگی کو اپنی شرائط پر سمجھ سکیں۔ تشخیص اہم نہیں ہے۔ اور پھر ایک دن، اپنی وہم سے آگے بڑھ کر، اس نے اس کے لیے زیادہ ہائیڈرو مورفین دینے کا مطالبہ کیا، زیادہ کثرت سے وہ ان فنون کی سرپرست تھی جنہوں نے اسے صرف خوبصورتی کے بارے میں سکھایا تھا موت کے بارے میں نہیں۔ اس نے مجھے ڈاکٹر ڈیتھ کہنے سے پہلے ایک دن کہا۔ وہ نہیں جان سکتی تھی کہ میں اپنی نسل کشی کے درمیان ہوں۔ ہم نے مریض کے حقوق کی ذمہ داری ایک میڈیکل ٹیم سے دوسری کو سونپ دی، یہ جانتے ہوئے کہ ہم صرف ایک اذیت ناک انجام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا نظام میری بے حسی اور اس پر انحصار کو معمول بنا دیتا ہے جو مجھے بے حس کرتا ہے۔ جو میری اخلاقیات کو بے اثر کرتا ہے۔ ایک صحت کا نظام جو ایک ایسے نظام کا پیداوار ہے جو جنگوں میں دیگر زندگیاں تباہ کرنے کے لیے بے پناہ رقم خرچ کرتا ہے۔ یہ تو چھوڑ ہی دیں کہ کس کو اپنے جسم پر کیا اختیار حاصل ہے — اُس زندگی کا کیا ہوگا جو ایک اور زندگی کے اندر ہے، اور کب؟ ۔ کس کو دوسرے کے جسم پر، گھریلو ہو یا غیر ملکی، قابو پانے کا حق ملتا ہے؟ آٹو امیون نظام خود کو ہی کھا سکتا ہے۔ غزہ میں، حمل ایک جسم میں دو زندگیوں کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔ جو دو سے زیادہ کو بھی متاثر کرتا ہے۔
شعبان، وہ آدمی جو زندہ جل رہا تھا، جس کا نام رمضان سے پہلے آنے والے مہینے کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس کا بھائی بھی وفات پا گیا۔ اس کا نام کیا تھا؟ ان کی بہن بڑی مشکلوں سے زندہ ہے۔ ان کی والدہ بھی آگ میں مار دی گئی۔ باپ اور زندہ بچ جانے والے بہن بھائیوں کا کیا ہوگا؟ تمہاری یادداشت کس کی غلام ہے؟ اور پھر مزید مناظر آئے۔ ایک نوجوان لڑکی اپنے والد کی پر سکون لاش پر روتی ہوئی، جو اپنے گھر کے عبا میں اس کے سامنے پڑا تھا۔ ابھی کفن نہ ہوا تھا، وہ سوتا ہوا لگ رہا تھا۔ شاید شریپنل نے اسے مار دیا بغیر بدن کو بگاڑے، یا ٹکرانے کی قوت نے یا کسی اندرونی چوٹ نے اسے ختم کر دیا۔ وہ لگ بھگ نو سال کی لگتی تھی لیکن چھ سال کی بھی ہو سکتی تھی، اب یتیم اور بچپن سے محروم۔
اس کا چھوٹا بھائی بھی اس کے ساتھ جڑا ہوا تھا، ان کے آس پاس نہ ماں تھی نہ کوئی عورت۔ وہ رو رہا تھا، اگرچہ اس کی آواز اتنی شدید نہیں تھی جتنی اس کی بہن کی۔ اتنا ہی چھوٹا تھا وہ۔ اپنی بہن کے رونے کو سنبھال رہا تھا لیکن اس کا مقابلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کے رونے میں ہچکچاہٹ تھی۔ اس کا ذہن اسے تھوڑا بچا رہا تھا کیونکہ اسے زندگی کے بارے میں اس وقت جو کچھ معلوم ہے، وہ اس سے زیادہ جانتا ہے۔ اور اس کی بہن کی آنکھیں اپنے والد کی لاش پر اوپر نیچے جھانکتی تھیں، اس کے چہرے پر نظر جمائے بغیر، وہ پیٹ اور ٹانگوں کو مخاطب کر کے چلاتی: “کیا تم جاگو گے، یابا، بس ایک منٹ کے لیے، تم ٹھیک ہو جاؤ گے، تمہیں جاگنا ہوگا۔” جیسے وہ ذرا سستا رہا ہو، اور وہ تیار تھی کہ وہ اسے اس کے پسندیدہ کزن کے ہاں یا وعدے کے مطابق ساحل پر لے جائے گا۔
وہ اس کی چیخوں کے ساتھ ہم آہنگی میں اسے اوپر نیچے اسکین کرتی رہی جس سے ایک اور لڑکی یاد آئی جس کے والد کو اسرائیلی فورسز نے خاندان کے سات افراد سمیت گولی مار دی تھی، جب وہ ۱۸ سال پہلے ساحل سمندر پر فیملی ڈے منا رہے تھے۔ در ویش نے اس کے بارے میں لکھا، اور وہ مناظر دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچ گئے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہ اچانک اپنے والد کے پر سکون، رخصت شدہ چہرے کی طرف مڑتی ہے اور کہتی ہے، “یابا، پانی کا ایک گلاس کیسا رہے گا؟ تمہیں کچھ پانی لاؤں، یابا، پانی کا ایک گھونٹ؟” اس کی آواز نرمی سے نرم گفتگو میں بدل جاتی ہے۔ اپنی چند سالوں کے دوران بے شمار بار، وہ پیاسا ہوتا اور تھکا ہوا نظر آتا، اور وہ اسے پانی پیش کرتی، یا وہ اس سے مانگتا۔ کبھی کبھار یہ اس وقت ہوتا جب وہ صوفے پر تھوڑی دیر کے لیے سو گیا ہوتا یا سونے سے پہلے۔ اور وہ اسے پسند کرتی، اور اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر خوش ہوتی، جو پانی کے گلاس اٹھانے کی عمر کو پہنچ چکا تھا، کہ وہ بھی اس عمل میں شامل ہوتا۔ پانی ان کے دماغ میں محبت کا نقشہ بناتا تھا، اس سے پہلے کہ وہ جان پاتے کہ وہ خوبصورت چیز کیا ہے جو ان کے اندر نقش بن رہی ہے۔ اور وہ ہر احساس کو اپنے اندر سمو لیتی۔
یہ ایک قطعی فرض ہے۔ میں اب بھی اپنے والدین کو ان کے مانگنے سے پہلے پانی لا کر دیتا ہوں۔ اور جب میں اپنے بچوں سے پانی مانگتا ہوں، تو مجھے اپنے والدین کا احساس ہوتا ہے اور مجھے اپنے بچوں کو خوش دیکھ کر خوشی ملتی ہے. کیا تم نے ماں باپ کو وہی نغمۂ آب واپس نہیں سنایا، جو انہوں نے تمہیں سنایا تھا؟

Fady Joudah is the author of […], a finalist for the National Book Award. He has published six other collections of poems: The Earth in the Attic; Alight; Textu, a book-long sequence of short poems whose meter is based on cellphone character count; Footnotes in the Order of Disappearance; and, most recently, Tethered to Stars. He has translated several collections of poetry from the Arabic and is the co-editor and co-founder of the Etel Adnan Poetry Prize. Among his translations is The Blue Light, the autobiographical fiction of Hussein Barghouthi, from Seagall Books, 2023. He was a winner of the Yale Series of Younger Poets competition in 2007 and has received a PEN award, a Banipal/Times Literary Supplement prize from the UK, the Griffin Poetry Prize, a Guggenheim Fellowship, and the Arab American Book Award. He lives in Houston, with his wife and kids, where he practices internal medicine.
Maisara Baroud is a visual artist from Palestine. For more than a year, Maisara has been creating his series “I am still alive” in refugee camps, under the near-ceaseless fire of rockets, in Deir el-Balah, Rafah, and elsewhere in Gaza.
About the Art
Title: لازلت حياً / I’m still alive
حبر على ورق كانسون
21×30 سم
2025
Ink on Canson paper
21X30 cm
2025